Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۷(کتاب البیوع، کتاب الحوالہ، کتاب الکفالہ )
2 - 180
درمختار میں  ہے :
لو باعہ (ای الاٰبق) ثم عادوسلمۃ یتم البیع علی القول بفساد ہ ورجحہ الکمال وقیل لایتم علی القول ببطلانہ وھوالاظہر من الروایۃ واختارہ فی الہدایۃ وغیرہا وبہ کان یفتی البلخی وغیرہ، بحر و ابن کمال ۲؎۔
اگر بھاگے ہوئے غلام کو فروخت کیا پھر وہ لوٹ آیا اور اس کو مشتری کے حوالے کردیا تو اس قول کے مطابق بیع تام ہوجائے گی جس قول میں اس بیع کو فاسد قرار دیاگیا اور کمال نے اس کو ترجیح دی اور جس قول میں اس بیع کو باطل قرار دیا گیا اس کے مطابق بیع تمام نہ ہوگی اوریہی زیادہ ظاہر روایت  ہے ہدایہ وغیرہ نے اس کو اختیار کیا اور بلخی وغیرہ اس پر ہی فتوٰی دیتے تھے، بحر، ابن کمال (ت)
 (۲؎ درمختار  کتاب البیوع  باب البیع الفاسد مطبع مجتبائی دہلی  ۲/۲۵)
ہندیہ میں محیط سے  ہے :
وبہ اخذ جماعۃ من مشایخنا وبہ کان یفتی ابوعبداﷲ البلخی وھکذا ذکر شیخ الاسلام ۱؎۔
اس کو اخذ کیا  ہے ہمارے مشائخ کی ایک جماعت نے اور اس پر ابوعبداللہ بلخی فتوٰی دیتے تھے شیخ الاسلام نے یونہی ذکر فرمایا  ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ        کتاب البیوع الباب التاسع الفصل الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور  ۳/ ۱۱۲)
نیز غیاثیہ میں  ہے:
قالوااوالمختار ھذا ۲؎
(مشائخ نے فرمایا یہی مختار  ہے۔ ت)
 (۲؎ الفتاوٰی الغیاثیہ   کتاب البیوع الفصل الثانی   مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ     ص۱۴۳)
ردالمحتار میں  ہے :
قال فی الفتح والحق ان  الاختلاف فیہ بناء علی الاختلاف فی انہ باطل اوفاسد وانک علمت ان ارتفاع المفسد فی الفاسد  یردہ صحیا لان البیع قائم مع الفساد ومع البطلان لم یکن قائما بصفۃ البطلان بل معدوما ، فوجہ البطلان عدم قدرۃ التسلیم، فوجہ البطلان عدم قدرۃ التسلیم، ووجہ الفساد قیام المالیۃ والملک، والوجہ عندی ان عدم القدرۃ علی التسلیم مفسد لا مبطل ۳؎۔
فتح میں فرمایا: حق یہ  ہے کہ اس میں اختلاف اس اختلاف پر مبنی  ہے کہ یہ بیع باطل  ہے یا فاسد، اور بیشک توجانتا ہے کہ ازالہ مفسد سے بیع فاسد صحیح ہوجاتی  ہے کیونکہ فساد کے باوجود بیع قائم رہتی  ہے جبکہ بطلان کے ساتھ بسبب صفۃ بطلان کے بیع قائم نہیں رہتی بلکہ معدوم ہوجاتی  ہے، پس بطلان کی وجہ قدرت تسلیم کا نہ ہونا  ہے جبکہ فساد کی وجہ سے مالیت وملک کا قیام  ہے اور میرے نزدیک اس کی وجہ یہ  ہے کہ تسلیم مبیع پر قادرنہ ہونا بیع کو فاسد کرنے والا  ہے نہ کہ باطل کرنے ولا۔ (ت)
 (۳؎ ردالمحتار   کتاب البیوع    باب بیع الفاسد   داراحیاء التراث العربی بیعروت    ۴/ ۱۱۳)
ہندیہ میں محیط سے  ہے:
وبہ اخذ الکرخی وجماعۃ من مشایخنا وھکذا ذکر القاضی الا سبیجابی فی شرحہ ۴؎۔
اور اسی کو اخذ کیا ہے کرخی اور ہمارے مشائخ کی ایک جماعت نے اور قاضی اسبیجابی نے اپنی شرح میں یوں ذکر فرمایا  ہے۔ (ت)
 (۴؎ فتاوٰی ہندیۃ    الباب التاسع     الفصل الثالث   نورانی کتب خانہ پشاور        ۳ /۱۱۲ )
نیز اسی سے بحوالہ غیاثیہ گزرا : ھو موقوف ھوالصحیح ۵؎ اھ وھو تصحیح للقول بالفساد کما بینا علی ھامشہا ولاغرو جمع الفساد والتوقف ففی ردالمحتار عن البحر ان بیع المکرہ فاسد موقوف ۱؎ الخ وتمامہ فیہ وبہ یحصل الجمع بین قول الخانیۃ فی مسالتنا لایجوز بیعہ وقول غیرہ موقوف، واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم عزشانہ احکم۔
وہ موقوف  ہے یہی صحیح  ہے اھ اور وہ قول فسادکی تصحیح  ہے جیساکہ ہم نے اس کے حاشیہ پر بیان کیا اور فسادو توقف کے جمع ہونے میں کوئی تعجب نہیں، پس ردالمحتارمیں بحر کے حوالے سے  ہے کہ مکرہ کی بیع فاسد موقوف  ہے الخ اور اس کی مکمل بحث اس میں ہے اور اسی سے ہمارے مسئلہ میں خانیہ کے قول کہ بیع ناجائز  ہے اور اس کے غیر کے قول کہ بیع موقوف  ہے کے درمیان تطبیق حاصل ہوگئی، واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔ وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم عزشانہ احکم (ت)
 (۵؎فتاوٰی ہندیۃ    الباب التاسع     الفصل الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور      ۳ /۱۱۱ )

(۱؎ردالمحتار  کتاب البیوع    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۴)
مسئلہ ۳: ازشہر کہنہ    ۲محرم الحرام ۱۳۱۶ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زیدنے ایک شے کو فروخت کیا اس شرط پر کہ نصف روپیہ خریداری مال لیا اور نصف روپیہ وقت جانے مال کے کہ جو پہلی مرتبہ جائے گا ہم اپنا آدمی بھیج کر منگالیں گے ، زیدنے آدمی نہ بھیجا، خریدار نے وہ نصف روپیہ اپنے طور پر اپنے آدمی کے ہاتھ بھیج دیا، اب چونکہ نرخ اس مال کا بموجب فروخت حال کے دوچند ہوگیا لہٰذا زید کی اب یہ نیت  ہے کہ یہ روپیہ جو نصف مال کی قیمت کاآیا  ہے واپس کردے اور مال نہ دے ، اور یہ بھی واضح ہو کہ جو مال زید سے لینا قرار پایا تھا وہ مال بھی نہ دیا اس سے کم قیمت کا دیا  ہے۔بینوا توجروا
الجواب

بیع ایجاب وقبول سے تمام ہوجاتی  ہے، اور جب بیع صحیح شرع واقع ہولے تو اس کے بعد بائع یا مشتری کسی کو بے رضامندی دوسرے کے اس سے یوں پھر جانا روا نہیں، نہ اس کے پھر نے سے وہ معاہدہ جو مکمل ہوچکا ٹوٹ سکتا ہے، زید پر لازم  ہے کہ مال فروخت شدہ تمام وکمال خریدار کو دے ،
ہدایہ میں  ہے :
اذا حصل الایجاب والقبول لزم البیع والاخیار لواحد منہما  الامن عیب وعدم رویۃ ۲؎۔
   جب ایجاب وقبول حاصل ہوجائے تو بیع لازم ہوجاتی  ہے اور بائع ومشتری میں سےکسی کو فسخ کا خیار حاصل نہیں ہوتا سوائے اس کےکہ مبیع میں کوئی عیب ظاہر ہو جائے یا مشتری نے بوقت بیع اس کودیکھا نہ ہو۔ (ت)
 (۲؎ الہدایہ  کتاب البیوع   مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳ /۲۵)
مال ناقص جو خلاف قرار داد زید نے بھیجا مشتری اسے واپس پہنچا کر اپنی اصل خریداری کامال لے سکتا ہے جب کہ مشتری سے کوئی امر مانع واپسی نہ ہواہو مثلا اسے دیکھنے کے بعد وہ قول یا فعل جو اسی مال پرراضی ہوجانے کی دلیل ہو،
درمختارمیں  ہے : (لہ) ای لللمشتری (ان یردہ اذا راٰہ) الا اذا حملہ البائع لبیت المشتری فلا یردہ اذا  راٰہ الا اذا اعادہ الی البائع اشباہ (ویثبت الخیار) للرؤیۃ (مطلقا غیر موقت) بمدۃ ھوالاصح، عنایۃ،لاطلاق النص مالم  یوجد مبطلہ وھو مبطل خیار الشرط مطلقا ومفید الرضا بعد الرؤیۃ لاقبلھا، درر، ۱؎ اھ مختصرا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اس کو یعنی مشتری کو اختیار  ہے کہ بیع کو رد کردے جب مبیع کو دیکھے مگر جب بائع مبیع کو مشتری کے گھر اٹھالایا ہو تو اب مشتری نے اسے دیکھنے پر رد نہ کیا ہو، ہاں اگر مشتری نے مبیع کو بائع کی طرف لوٹا دیا تو رد ہوجائے گا __ (اشباہ ) اور خیار رؤیت مطلقا ثابت ہوتا  ہے کسی مدت کے ساتھ مقید نہیں ہوتا یہی زیادہ صحیح  ہے (عنایہ) کیونکہ نص میں اطلاق  ہے جب تک مبطل خیار رؤیت نہ پایا جائے اور اس کا مبطل وہی  ہے جو خیار شرط کا مبطل  ہے مطلقا یعنی قولی ہویا فعلی ، اور وہ فعل یا قول بھی مبطل  ہے جو مفید رضا ہوجبکہ وہ رؤیت کے بعد پایا جائے نہ کہ رؤیت سے پہلے، درر اھ( مختصراً) واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۱؎ الدارالمختار    کتاب البیوع باب خیار الرؤیۃ     مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۱۴)
Flag Counter